HARAM IS HARAM, HALAL IS HALAL


HARAM IS HARAM, HALAL IS HALAL
By Ashfaq Ahmed 
When I lived in the Bay, on the corner of our street vendors who would stand sage. instead he was as young children was crowded.
Is surprised that in this case is Allah?

I do know that the curiosity is actually the case.

I went to the vendors and the "Baba Ji are you
Is ".
He said to me that a "G's Thank God, I enjoin Yes, what ye shall eat."
I said, "What is the brother, the rate of the guava are those who have".
".
I asked him "Why free?".
He will then G "provision is the religion of God, God has given me a lot is that I will find my destiny".

He replied that crap! Thirty-five years later, while I do this.
I asked what you thought of this cycle vendors are working on, the world has grown, the growth cycle of fruit you make any big shop, and costly things to sell a house while standing.
I said it, my three sons and a daughter. Daughter has been my home and is very happy. My twelve aykrzray land in villages near Karachi. God's grace is married with two sons. The second is a growing trade works. There is also a small study. Grace of God is in the house. Prosperity. Tractors.
O my son, I can say that you leave the job you're old now. He said: Sir, I shall leave it with little work when he left me.
Well I gave it a trivial task, given pleasure. I was poor. I'm going to land. Tractor and the great thing is that my son is very obedient. I have fed my children always crud.
I wish now that I hod carrying himself to death.
Early morning wake up, go to market, buy fruit from the average bear and streets. The evening ends.
I think the flow of repetition.
There was an uproar in my entire life.
Young I eat fruit stand, and treat me with love.
She takes very good.
He told me that the day they free the people from their vendors had opened with a loss. And Syria are more than the amount of money he is buying fruit in the market.
Ashfaq Ahmed "Zavia" Chapter 3: "contentment" page 211, 212


سمن آباد میں جب میں رہا کرتا تھا ، تو ہماری گلی کے نکڑ پر ایک چھابڑی والا بابا کھڑا ہوتا تھا ۔ اس چھابڑی والے اور دوسرے چھابڑی والوں میں ایک نمایاں فرق تھا ، اور یہ فرق میں نے کئی برسوں کے بعد محسوس کیا کیونکہ ہر جمعے کے جمعے جب میں نماز پڑھنے کے لیے مسجد جا رہا ہوتا تھا اور واپس آتا تھا تو وہ چھابڑی والا وہیں کھڑا ہوتا تھا اور اس کے پاس چھوٹے بچوں کے بجائے نوجوانوں کا رش ہوتا تھا ۔
میں بڑا حیران ہوتا کہ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے ؟ 
اس کی چھابڑی میں موسم کے حوالے سے تھوڑے بہت پھل ہوتے تھے اور وہ پھل بھی کوئی نہایت اعلیٰ قسم کے نہیں ہوتے تھے ۔بلکہ عام سے جنہیں ہم درجہ دوم یا سوم کہتے ہیں وہ ہوتے تھے لیکن رش بڑا ہوتا تھا ۔
مجھے بڑا تجسس ہوا کہ پتہ کروں اصل معاملہ کیا ہے ۔
ایک دن جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب میں گھر واپس آ رہا تھا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج اس کی وجہ شہرت جانی جائے ۔
میں اس چھابڑی والے کے پاس گیا اور کہا کہ " بابا جی آپ کا کیا حال 
ہے " ۔
وہ نہایت اخلاق سے بولے کہ " جی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، صاحب جی حکم کرو ، کیا کھاؤ گے " ۔
میں نے کہا کہ" کیا بھاؤ ہے ، یہ امرود جو پڑے ہیں ان کے کیا ریٹ ہیں " ۔
میری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے کہا کہ " صاحب جی جتنا دل کرتا ہے کھا لو ، کوئی بات نہیں "، اور وہ یہ کہتے ہوئے امرود کاٹنے لگا کہ کہ " ایہہ امرود بڑے مٹھے نےکھاؤ گے تو مزہ آ جائے گا " ۔
میں نے اس سے کہا کہ " مفت میں کیوں ؟ " ۔
تو وہ کہنے لگا کہ جی " رزق خدا کی دین ہے ، اللہ کا دیا بہت کچھ ہے جو میری قسمت میں ہوگا مجھے مل جائے گا " ۔
اب اس شخص میں میرا تجسس اور بڑھ گیا اور میں نے اس کے کاٹ کے رکھے ہوئے امرود کھاتے ہوئے اس سے سوال کیا کہ " بابا جی آپ کب سے یہ کام کر رہے ہیں " ۔
اس نے جواب دیا کہ صاحب جی ! مجھے پینتیس سال ہو گئے اس کام کو کرتے ہوئے ۔
میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ اس سائیکل پر ہی چھابڑی لگا کر کام کر رہے ہیں ، دنیا نے بڑی ترقی کر لی ، آپ بھی ترقی کرتے سائیکل سے فروٹ کی کوئی بڑی دوکان بناتے ، اور مہنگے داموں چیزیں فروخت کر کے کوئی محل کھڑا کرتے ۔
اس نے جواب دیا کہ صاحب جی میرے تین بیٹے ہیں ایک بیٹی ہے ۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوچکی ہے اور بہت خوش ہے ۔ پتوکی کے قریب گاؤں میں میری بارہ ایکڑزرعی زمین ہے ۔ اللہ کے فضل سے دو بیٹے شادی شدہ ہیں ۔ ایک کاشت کاری کرتا ہے جب کہ دوسرا بیوپار کا کام کرتا ہے ۔ سب چھوٹا ا بھی پڑھتا ہے ۔ گھر میں خدا کا کرم ہے ۔ خوشحالی ہے ۔ ٹریکٹر ہے ۔
میرے بیٹے اب مجھے کہتے ہیں کہ ابا تم اب یہ کام چھوڑ دو تم اب بوڑھے ہو گئے ہو ۔ وہ بولا صاحب جی میں اس چھوٹے سے کام کا ساتھ کیسے چھوڑ دوں جب اس نے مجھے نہیں چھوڑا ۔
اس معمولی کام نے مجھے خوشحالی دی ، خوشی دی ۔ میں غریب آدمی تھا ۔ اب زمین والا ہوں۔ ٹریکٹر والا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میری اولاد بڑی فرمانبردار ہے ۔ میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ حلال رزق کھلایا ہے ۔
اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس چھابڑی کو لے کر مرتے دم تک پھرتا رہوں ۔ 
صبح سویرے اٹھتا ہوں ، منڈی جاتا ہوں ، وہاں سے اوسط درجے کا فروٹ خریدتا ہوں اور گلی گلی پھرتا ہوں ۔ شام کو یہ ختم ہو جاتا ہے ۔ 
کبھی میں نے بھاؤ پہ تکرار نہیں کی ۔ 
میری پوری زندگی میں کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی ۔ 
نوجوان میرے پاس کھڑے ہو کر فروٹ کھاتے ہیں ، اور مجھ سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔ 
وہ مجھے بڑے اچھے لگتے ہیں ۔ 
اس نے مجھے بتایا کہ چاہے وہ سارا دن اپنی چھابڑی میں سے لوگو ں کو مفت کھلاتا رہے کبھی گھاٹا نہیں پڑا ۔ اور شام کو پیسے اس رقم سے زیادہ ہوتے ہیں جن سے اس نے منڈی میں پھل خریدا ہوتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 باب " قناعت پسندی " صفحہ 211، 212




SHARE
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment